ابے او بے شرم ! تجھے نام رکھنے کے لیے حروف تہجی میں سے کوئی اور حرف نہیں ملا جو “ک” منتخب کر لیا ، یہ بھی نہ سوچا کہ اس حرف کے نام کا کیانی بھی ہوسکتا ہے اور اگر وہ کالم نگار بھی ہوا تو” تیرا کیا بنے گا کالیا ؟” اور تجھے لفظی جوتوں سے کون بچائے گا ؟ چل خیر آگے چلتے ہیں ،آغاز سے تجھے اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا میں ادب و احترام صرف اسی کا کرتا ہوں جو اس کے قابل ہو کیونکہ کرونا ، کیانی اور کالم کی طرح بدقسمتی سے کتا بھی ” ک” سے ہی شروع ہوتا ہے اور تجھ جیسے بے حیا کی ” کتے کھانی ” کرنے میں مجھے ید طولی حاصل ہے ، ویسے بات سن تجھے داد نہ دینا بھی زیادتی ہو گی اور میں زیادتی کا قائل نہیں ، ابھے گھامڑ تو سوچ رہا ہوگا کہ داد کس بات پر، یہ جو تو نے اپنے تئیں اشرف المخلوقات بنے حضرت انسان کی دوڑیں لگوا رکھی ہیں اور اسے اپنی اوقات یاد دلا دی ہے ، دنیا کی سپر پاورز کی بے چارگی دیکھ کر مزہ آگیا ، یہ جو تو نے چینیوں اور امریکیوں کو محمود و ایاز کی طرح بندے کا پتر بنا کر ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے ، اس پر داد تو بنتی ہے ناں ، تیرے انصاف کو بھی سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ خدا کو ماننے والے اور اس کا انکار کرنے والے تجھ سے ایک جتنے ہی خوفزدہ ہیں ، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ماننے والے کچھ زیادہ ہی خوف کا شکار ہیں ، توکل کادرس دینے والے مسلمان دھڑا دھڑ اشیائے خوردنی بلکہ نا خوردنی بھی اکٹھا کر رہے ہیں ، دن میں کم از کم 48 بار ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں کہنے والے مساجد بلکہ کعبے جانے سے بھی خوفزدہ ہیں اور خوش ہیں کہ خدا نے طواف کی ڈیوٹی اپنے نائب سے لے کر پرندوں کے سپرد کر دی ہے ، اس سلسلے کی ایک دھڑا دھڑ شیئر کی جانے والی ویڈیو ، سپر مارکیٹوں میں ٹوائیلٹ پیپر کے لیے لڑائی کی ویڈیو ، خود ساختہ ماہرین اور علماء کے مشورے سوشل میڈیا پر بکھرے پڑے ہیں ، عیسائی اور یہودی بھی اجتماعات پر پابندی لگا چکے یا لگانے کا سوچ رہے ہیں، ابے او جاہل تو کچھ پڑھا لکھا بھی ہے؟ ،فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئیٹر اور دیگر سوشل میڈیا استعمال کرنا جانتا ہے یا میں پتھر کے ساتھ سر پھوڑ رہا ہوں ، کالم کہیں طوالت کی وجہ سے بورنگ نہ ہوجائے اس لیے کسی روز آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرتے ہیں وقت ملے تو آجا، ابے بے وقوف حیران مت ہو کہ کیسا آدمی ہے لوگ جس سے پناہ مانگ رہے ہیں یہ اسے دعوت دے رہا ہے ، تو سن یہ ناچیز شکل اور اعمال سے مسلمان ہو نہ ہو دل و دماغ سے مسلمان ہی نہیں مومن بھی ہے اور ڈر مومن کی کھال میں گھستا ہی نہیں، میرا ایمان ہے موت جس وقت اور جس کے ہاتھوں لکھی ہے نہ ہاتھ بدل سکتا ہے نہ لمحہ، پھر ڈر کیسا ، بیٹھیں گے باتیں کریں گے ، اگر میری تیرے ہاتھوں لکھی ہے تو میں سہی ورنہ تو تو ہے ہی ،اور دعوت کے ساتھ یہ ہدایت نامہ بھی بھیج رہا ہوں کہیں منہ اٹھائے چلے آئو اور پھر کہو وارننگ بھی نہیں دی ،یاد رکھنا میری موت پر رونے والے تو شاید ایک دو ہی ہوں گے جبکہ تیری موت پر ہنسسنے والے کروڑوں میں ہوں گے ، دیگر احوال یہ ہے کہ میں نے عوام کی طرح چیزوں کا ذخیرہ نہیں کر رکھا لہذا کسی دعوت شیراز کی توقع نہ رکھنا ، آدھا کپ دودھ موجود ہے اگر تم معقول لگے تو ایک کپ چائے پلا سکتا ہوں ورنہ صاحب بھوک بانٹنی پڑے گی ، آخری بات کل مجھے ایک دوست کے ذریعے لیلی احمد کا خط بذریعہ واٹس ایپ ملا ، جس نے چائنہ سے تمھارے بارے میں لکھا ہے ہو سکے تو اسے بھی ساتھ لیتے آنے ، اب آخری وقت (میرے یا تمھارے، کون جانتا ہے کس کی کس کے ہاتھوں لکھی ہے کہ ہم دونوں کی کہانی کا لکھنے والا تو ایک ہی ہے ناں؟) میں کچھ ماحول کی رنگینی کا انتظام بھی ہونا چاہیے اور یہ تمھیں کرنا ہے کہ یہاں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے
Aamer Shahid Kayani is TLTP’s UK Resident Editor